انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل کا اعلامیہ: حسینہ حکومت مردہ باد! بنگلہ دیشی طلبہ زندہ باد!

انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل بنگلہ دیشی طلبہ کی ولولہ انگیز بہادری کو لال سلام پیش کرتی ہے۔ ایک غلیظ کوٹہ نظام کے خلاف شروع ہونے والی تحریک قاتل حسینہ حکومت کے خاتمے کی تحریک بن چکی ہے۔ پوری دنیا کے 40 سے زائد ممالک میں موجود ہمارے کامریڈز آپ کے ساتھ بھرپور یکجہتی کا اعلان کرتے ہیں۔ بنگلہ دیشی طلبہ کی حق پرست تحریک پوری دنیا کے محنت کشوں اور طلبہ کی آواز ہے! پوری دنیا کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس وقت بنگلہ دیش میں کیا ہو رہا ہے۔

[Source]

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

اپنے وفاداروں کو نوازنے کے لیے حسینہ حکومت کے کوٹہ نظام کے خلاف یہ تحریک عرصہ پہلے محض نوکریوں کے مسئلے سے بہت آگے بڑھ چکی ہے۔ حکومت نے قتل، گرفتاریاں اور تشدد کا بازار گرم کر رکھا ہے اور واضح ہو چکا ہے کہ اس حکومت کی موجودگی میں بنگلہ دیش کے عوام کے لیے ایک آزاد اور باعزت زندگی ناممکن ہے۔ اس کا خاتمہ لازم ہو چکا ہے اور قاتلوں کو کیفر کردار پہنچانا ہو گا۔ طلبہ کے الفاظ میں، ”پہلے ہم لاشیں شمار کریں گے، پھر ہم کوٹہ شمار کریں گے“۔

عالمی یکجہتی کی ضرورت اشد ہو چکی ہے۔ حسینہ حکومت کی جانب سے مسلط قتل و غارت گری کی مہم کے باوجود باغی طلبہ نے کسی ایک مطالبے پر بھی پسپائی اختیار کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ریاستی جبر و تشدد بھی پوری شدت سے جاری ہے۔ پولیس گھر گھر تلاشی لے کر طلبہ کو گرفتار کر رہی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2 ہزار سے زیادہ طلبہ گرفتار کیے جا چکے ہیں۔

سرد خانوں میں ابھی تک لاشیں پہنچ رہی ہیں۔ ڈاکٹروں نے خبر دی ہے کہ سرد خانے بھر چکے ہیں اور لاشیں ایک دوسرے کے اوپر ڈالی جا رہی ہیں۔ بنگلہ دیشی اخباروں کے مطابق 200 افراد قتل ہو چکے ہیں لیکن یہ شمار حقیقی تعداد سے بہت کم ہے۔

حکومت پاگل پن میں ہر جگہ سے اپنے قتل عام کے نشانات مٹانے پر تلی ہوئی ہے۔ پولیس ہر ہسپتال جا کر مردہ افراد کا رجسٹر جبری ضبط کر رہی ہے تاکہ ان کے جرائم کا حقیقی ادراک نہ ہو۔ لیکن ہم اس پردہ پوشی کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے!

ہر جگہ پر موجود محنت کشوں اور طلبہ کی یہ عالمی یکجہتی ذمہ داری ہے کہ حسینہ حکومت کے جرائم کو اجاگر کریں اور اس خاموشی کی سازش میں عالمی میڈیا کا مقابلہ کریں۔

ہم میڈیا کی جانب سے اس خاموشی کی سازش کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ ارب پتیوں کی ملکیت میں موجود پریس حسینہ کو اپنے طبقے کا ایک وفادار سمجھتا ہے۔ اس نے بنگلہ دیش کو سستی محنت کی ایک جنت بنا رکھا ہے جس کا ان کا طبقہ بے لگام استحصال کر رہا ہے۔ بنگلہ دیشی محنت کش طبقے کے خون سے ہر سال دیوہیکل منافع نچوڑا جا رہا ہے۔ اس لیے وہ تمام قتل و غارت گری سے آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں تاکہ ان کی کٹھ پتلی اقتدار سے چمٹی رہے۔

اسی طرح ہم نام نہاد ”عالمی کمیونٹی“ کی بھی شدید مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے اس حوالے سے ایک انگلی ہلانا گوارا نہیں کیا ہے۔ یہ ”کمیونٹی“ لٹیروں اور استحصالیوں کی کمیونٹی ہے۔ حسینہ ان میں سے ایک ہے۔ ان گلی سڑی سرمایہ دارانہ ریاستوں کو اپنے ممالک میں موجود محنت کشوں اور نوجوانوں کے دیوہیکل انقلابی غصے کی تپش محسوس ہو رہی ہے۔ ان کا دل خوف سے دہل رہا ہے کہ بنگلہ دیشی طلبہ کی ولولہ انگیز مثال ان کے اپنے گھروں میں حقیقت کا روپ نہ دھار لے۔

یہ امریکہ، برطانیہ، انڈیا یہاں تک کہ پاکستان کے لیے بھی درست ہے۔ حسینہ حکومت کوشش کر رہی ہے کہ پرانے دشمن پاکستان اور ”خفیہ کرداروں“ پر احتجاجوں کو برپاء کرنے کا الزام لگایا جا سکے۔ وہ جھوٹ بول رہے ہیں! ان تمام ممالک کا غلیظ اور گھٹیا حکمران طبقہ، چاہے وہ حسینہ اور اس کے بدمعاش ٹولے کے دشمن ہیں یا دوست۔۔ بنگلہ دیشی طلبہ کی مثال سے خوفزدہ ہیں!

لیکن آپ کی جدوجہد کے لیے ہر جگہ پسے ہوئے غرباء کے دل لطیف اور گرمجوش جذبات سے دھڑک رہے ہیں۔ بنگلہ دیشی طلبہ کے لیے ہمارا پیغام ہے۔۔ آپ کا ایک ہی اتحادی ہے، بنگلہ دیش اور پوری دنیا کا محنت کش طبقہ اور نوجوان!

ہم ہر ممکن کوشش کریں گے کہ پوری دنیا کے محنت کشوں کو آپ کے مسائل سے آگاہ کیا جائے۔ ہم تمام یونیورسٹیوں میں، سفارت خانوں اور میڈیا دفاتر کے باہر یکجہتی احتجاجوں کی کال دیتے ہیں، ہم ہر جگہ ٹریڈ یونینز اور محنت کشوں اور نوجوانوں کی تنظیموں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ تارکین وطن بنگالیوں کے ساتھ مل کر احتجاج منظم کریں اور اس قتل عام کی شدید مذمت کریں۔

ہمیں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ حسینہ اس وقت طبقاتی جنگ لڑ رہی ہے۔ اس کی حکومت کا ایک ہی مقصد ہے۔۔ سرمایہ دار طبقے کے لیے ”امن“ قائم کیا جائے تاکہ ٹیکسٹائل پیداکار اور دیوہیکل اجارہ داریاں اور ظاہر ہے اس کا اپنا ٹولہ بنگلہ دیشی محنت کش عوام کا سکون سے استحصال جاری رکھ سکے۔

عوام کو سرمایہ داری کا دیوہیکل بحران بے قابو افراط زر، بیروزگاری اور غربت کے ذریعے مسلسل کچل رہا ہے۔ کروڑوں افراد وطن ترک کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں تاکہ بیرون ملک نوکریاں کر کے پیچھے گھر پالے جا سکیں۔ انہیں مجبوراً ایسی نوکریاں کرنی پڑتی ہیں جن میں اجرتیں نہ ہونے کے برابر ہیں، مزدور حقوق کا نام و نشان نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ہجرت کیے گئے ممالک میں غلیظ قوم پرستی اور جبر الگ سہنا پڑتا ہے۔

وہ برداشت کی آخری حدوں کو پہنچ چکے ہیں۔ وہ طلبہ جدوجہد کے ساتھ اپنے وپر مسلط نفرت زدہ جبر اور استحصال کو جوڑتے ہیں۔ حسینہ کو محنت کش طبقے کی دیوہیکل تحریک کے خطرات کا سامنا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر ایسی تحریک پھٹ پڑتی تو اس کی حکومت کا خاتمہ ہو جاتا۔ اس لیے اس نے تند و تیز اور سخت ترین جبر مسلط کیا ہے تاکہ ایسی کوئی بھی تحریک محنت کشوں کو اپنی لپیٹ میں نہ لے۔

شیخ حسینہ نے احتجاجی طلبہ کو ”رضاکار“ کہا ہے (1971ء کی جنگ آزادی میں استعمال ہونے والی رد انقلابی پیراملٹری) لیکن در حقیقت یہ عوامی لیگ اور بنگلہ دیشی حکمران طبقہ ہے جس نے جنگ آزادی سے غداری کی جسے محنت کش، کسان اور طلبہ لڑ رہے تھے۔ در حقیقت بنگلہ دیشی طلبہ نے کوٹہ نظام کے خلاف تحریک کے ذریعے انقلابی جدوجہد کو بھڑکا کر ایک مرتبہ پھر بہترین تاریخی انقلابی روایات کے ساتھ رشتہ جوڑ لیا ہے۔

لیکن عوام کے خلاف بدترین جبر و تشدد کرنے کے ساتھ حسینہ اپنی پوری قوت استعمال کر رہی ہے کہ سرمایہ داروں کو خوش رکھا جائے اور ان کے منافعوں میں ایک روپے کے نقصان کے بغیر عوام کو کچل دیا جائے۔ کرفیو اور بلیک آؤٹ نے عوام کو مزید بدحال کر دیا ہے۔ لیکن حسینہ نے چٹاگانگ EPZ (ایکسپورٹ پراسسنگ زون) میں موجود 400 ملبوسات فیکٹریوں کو اس سے استثناء دے رکھی ہے جہاں 5 لاکھ ملبوسات بنانے والے مزدور کام کرتے ہیں۔

یہ فیکٹریاں کام کر رہی ہیں تاکہ سرمایہ دار کسی رکاوٹ کے بغیر منافعوں کی لوٹ مار جاری رکھیں۔ لیکن حسینہ اور حکمران طبقے کو اگر کسی چیز کا طلبہ تحریک سے بھی زیادہ حقیقی خوف ہے تو وہ ہے طلبہ تحریک اور محنت کشوں کا اکٹھ اور خاص طور پر ٹیکسٹائل صنعت کے محنت کش جن کی طاقت کی ایک جھلک ہم نے نومبر کی ہڑتالی تحریک میں دیکھی ہے۔

ہم دیکھ رہے ہیں کہ ریاستی فورسز کو استعمال کر کے EPZ کے اندر یا باہر آنے کی کسی کو اجازت نہیں ہے۔ حکومت سر توڑ کوشش کر رہی ہے کہ طلبہ اور محنت کشوں کے اس طاقتور حصے کے درمیان ہمالیہ سے اونچی دیوار قائم رہے۔

تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے اس دیوار کو توڑنا ہو گا۔ حسینہ حکومت کے خاتمے کے لیے محنت کشوں کی قوتوں کو متحرک ہونا ہو گا۔ اس کے لیے ایک غیر معینہ مدت ملک گیر عام ہڑتال لازم ہے جو سنگراما پاریشادا (جدوجہد کی کونسلیں) سے جڑ کر طلبہ اور محنت کشوں کو متحد کرے۔

مقامی، شہری، ڈسٹرکٹ اور قومی سطح پر منظم یہ کمیٹیاں دفاع کو منظم اور تحریک کو پھیلانے کے ساتھ محنت کشوں کی حقیقی متبادل قوت بن سکتی ہیں جو اس جابر ریاست کو چیلنج کرے اور سوال اٹھائے کہ ملک کا حقیقی حاکم کون ہے۔ یہاں سوال عوامی لیگ کی جگہ اسی طرح کرپٹ BNP کو عوام پر مسلط کرنے کا نہیں ہے جو خود سرمایہ داروں اور عالمی اجارہ داریوں کی غلام ہے بلکہ بنگلہ دیشی محنت کشوں کو ملک کا نظام اپنے ہاتھوں میں لینا ہو گا۔

بنگلہ دیش کے طلبہ کی فتح زندہ باد!
عالمی یکجہتی زندہ باد!
حسینہ حکومت مردہ باد!
سرمایہ داری مردہ باد!